
جب تم اللہ کے سوا باقی چیزوں میں اپنا سکون تلاش کرتے ہو تو وہ تمہیں وہ سب چیزیں تھما کر بے سکون کر دیتا ہے۔۔۔ ہر شے کی تکمیل کے بعد تمہیں اپنا آپ خالی سا لگنے لگتا ہے۔۔۔ پھر آذانوں کی آواز کانوں تک تو پہنچتی ہے مگر دل تک نہیں پہنچتی، پھر نا عبادات اس بےچینی کو ختم کر پاتی ہیں، نہ سجدوں سے چین پڑتا ہے، کیونکہ انسان “Default” موڈ پر لگا ہوتا ہے، یقین کا دعوہ کر لینا بہت آسان ہوتا ہے مگر امتحان تو تب لیا جاتا ہے جب غم یقین پر بھاری ہوتا ہے، جب دکھوں کی شدت مصلحتوں کو تسلیم نہیں کر پاتی۔۔۔ پھر سب حاصل کر کے بھی تم بے بس ہو جاتے ہو۔۔۔ پھر ہر خوشی تمہیں ادسی لگتی ہے، پھر اللہ تمہیں بتاتا ہے میں ہوں تو سب ہے میں نہیں تو کچھ بھی نہیں، زندگی کی “Equation” سے اللہ کو نکال دیا جائے تو باقی سب صفر سے ضرب کھا جاتا ہے، اور اگر رب سے تعلق مضبوط ہو جائے وہ تو بھی تمہاری چاہت کے لیے ہر ناممکن کو ممکن بنا دیتا ہے، یا تو عطاء کردیتا ہے یا طلب ہی مٹا دیتا ہے، ٹوٹے ہوئے دل سے نکلی ہوئی پکار کو تو اللہ کبھی واپس نہیں موڑتا ایسے میں جب بندہ دعا کرتا ہے تو آمین کہنے سے پہلے اللہ فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ میرے اس بندے کی چاہت قبول کرلے


