
عام طور پر لوگ دین داری اور خودداری، تکبروغرور اور تواضع کو لے کر بڑی الجھن میں رہتے ہیں۔ کوئی ایک شخص ہی ان کو کبھی دین دار لگتا ہے، تو منٹوں میں وہ مغرور لگتا ہے۔ تو سیکنڈوں میں وہ متواضع لگتا ہے۔ اور کچھ ہی دیر میں وہ خوددار محسوس ہوتا ہے، لیکن اگلی ملاقات میں وہ پھر متکبر لگتا ہے۔ لیکن کیا کوئی ایک ہی شخص بیک وقت متکبر اور دیندار ہوسکتا ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو کیا وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول ہے؟ اور دراصل مسلمان کو ہونا کیسا چاہئے؟ صرف خوددار متکبر، یا دیندار متکبر، یا دیندار تواضع والا ہونا چاہئے۔ آخر اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے؟ اور کہیں یہ ہماری بدگمانی تو نہیں ہے، یا واقعی دینداری آنے کے بعد غرور آنا قدرتی بات ہے۔ یا پھر ہم خودداری کو گھمنڈ کا لباس پہنا رہے ہیں؟ کہیں ہماری آنکھیں ہی تو گردآلود(میلی) نہیں ہیں۔ کیا پتہ یہ تواضع داری بھی ایک قسم کی مکاری ہو؟ جس کے پردے میں اپنا غرورچھپایا جارہا ہو۔ آیئے اس فرق کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کی روشنی میں پہچاننے کی کوشش کریں۔
تکبر اور خودداری میں فرق
خودداری ایک اخلاقی وصف (خوبی) ہے۔ جس سے انسان اپنی عزت، مرتبہ اور کردار و شخصیت کی حفاظت کرتا ہے۔ جس شخص میں یہ وصف (Quality) نہ ہو اس میں نہ تو اعلیٰ نظر کی صفات (خوبیاں) ہونگی اور نہ ہی سوچ وفکر اور خیالات کی بلندی ہوگی، اور پھر لوگ بھی اس کی عزت نہیں کریں گے اور نہ ہی اس کی باتوں کو کوئی اہمیت دیں گے۔
اور نہ ہی کسی مجلس میں اس کا وقار ہوگا۔ ہر مسلمان کو اپنے ایمان اور عزت وناموس کی حفاظت کے لیے خوددار ہونا چاہئے۔ تاکہ وہ بہترین مسلمان اور نمونہئ اخلاق بن کر دنیا کو سچے مسلمان کی پہچان کراسکے۔ صحابہ کرامؓ کے دل ہمیشہ اسلامی تعلیمات کی وجہ سے خودداری سے لبریز اور
معمور(بھرے) رہتے تھے۔ اسی وجہ سے صحابہئ کرامؓ جب خلافت کے زمانے میں قیصروکسریٰ کے سامنے جاتے تھے، تو وہ اپنی خودداری سے اس حد تک مطمئن ہوتے تھے کہ ان کے سامنے بے دھڑک چلے جاتے تھے۔ اور ان کے سوالوں کا جواب بڑی دلیری(بہادری) اور آزادی سے دیتے تھے۔ صرف اپنے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو پھیلانے اور پہونچانے کی فکر رہتی تھی کیونکہ ان کو اسلام پر کامل یقین ہوتا تھاکہ وہ ہی ان کی نجات اور اللہ کی رضامندی کا باعث ہوگا۔ اسی طرح آج بھی سچے مسلمان کسی کی پرواہ نہیں کرتے ہیں، وہ صرف مذہبی غیرت اور خودداری کی فکر میں رہتے ہیں۔ کیونکہ شرافت کا دوسرا نام ہی خودداری ہے۔ جس کی حفاظت انسان کو ہر قدم پر کرنی چاہئے۔ چاہے لباس ہو، یابول چال، یا رہنے۔سہنے کا ڈھنگ ہو، ہر چیز سے انسان کی شرافت کا اظہار ہونا چاہئے۔ لیکن اس میں احتیاط لازم ہے۔ کئی بار اس خودداری کی حفاظت میں انسان کے اندر سے خودنمائی(دکھلاوا) کی بُو آنے لگتی ہے، یہی وہ پیمانہ ہے جہاں سے انسان بے راہ ہوسکتا ہے۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے۔ خودداری کبھی اپنے حسب ونسب کی شان دکھانے میں دوسروں کو ایذا (تکلیف) پہونچاتی ہے، اور کبھی اپنی دولت کے نشے میں۔ اب وہ دولت علم کی بھی ہوسکتی ہے، حسن کی بھی ہوسکتی ہے۔ خاندانی شرافت یا اپنے نسب کی بھی ہوسکتی ہے، پھر انسان یہ کہتا نظر آتا ہے کہ بھئی میں تو بڑا خوددار ہوں، میں کسی کی پرواہ نہیں کرتا ہوں، کیونکہ(میں بہت بڑا عالم ہوں)(میں بہت بڑے خاندان سے ہوں) (میں بہت حسین ہوں) یہ بریکٹ والے الفاظ اس کے اسٹائل سے صاف نظر آتے ہیں، چاہے وہ زبان سے کہے یا نہ کہے۔ مگر اس کے اشاروں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی کی اوقات اپنے برابر نہیں سمجھ رہا ہے۔ حالانکہ اس کا نظریہ تو یہ ہوتا ہے کہ وہ سامنے والے کی اصلاح کررہا ہے۔ مگر دراصل اس میں خود کو نمایاں کرنے اور دوسروں کو حقیر جاننے کا جذبہ آٹومیٹک(Automatic) شامل ہوجاتا ہے۔ یہی وہ عمل ہے جس سے خودداری، غرور اور نمائش میں فرق پہچانا جاسکتا ہے۔ کیونکہ ہر عمل کی ایک حد مقرر ہے۔ اگر اس سے آگے جاؤگے تو اپنی خداداد خصوصیت (Speciality)کو مسمار (برباد) کردوگے۔ اور لوگ زبان سے کچھ کہیں یا نہ کہیں، مگر دل ان کا آپ کی طرف سے مکدّر (گندا) ضرور ہوجائے گا۔ اس لیے ہر ایک کو باعزت سمجھیں اور درگزر سے کام لیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کا ارشاد گرامی ہے۔ جس میں ذرّہ برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ اس پر ایک صحابیؓ نے یہ عرض کیا۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے اچھا لباس اور اچھا جوتا پہننا بہت پسند ہے، کیا یہ بھی غرور میں شامل ہے؟آپؐ نے فرمایا”خدا خود جمیل(Most Beautiful & magnificent) ہے اور جمال (Beauty) کو پسند کرتا ہے۔ غرور اور تکبر یہ ہے کہ حق کا انکار کیا جائے، اور لوگوں کو حقیر سمجھا جائے۔ (مسلم، رقم: ۶۵۲)
خودداری کا سب سے بڑا مظہر وقار یعنی سنجیدگی اور متانت ہے۔ اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر حال میں وقار کو قائم رکھنے کا حکم دیا ہے۔ نماز جو سب سے افضل عبادت ہے۔
لیکن اس کے بارے میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ”جب تم اقامت سنوتو نماز کے لیے سکون اور وقار کے ساتھ چلو جلدی نہ کرو“۔ (بخاری، رقم: ۸۰۹)
وقار ایک نہایت مکمل اور جامع لفظ ہے، جس میں بہت سی چیزیں شامل ہیں جیسے کہ انسانی رفتار۔ کلام کا سلیقہ۔لباس کا ڈھنگ۔ظاہری شکل وصورت کا سلیقہ یعنی اپنی زندگی کے تمام پہلوؤں میں باوقار رہے۔ نیک مومن کے طریقے، عادات وڈھنگ اور اخلاق اختیار کریں۔ فقروفاقہ اور تنگ دستی میں بھی حتی الامکان(جہاں تک ممکن ہوسکے) اپنے ہاتھ دوسروں کے آگے نہ پھیلائیں یا سوال نہ کریں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور جو شخص محتاج ہوکر اپنی احتیاج(ضرورت) لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے اس کی احتیاج دور نہیں ہوتی ہے۔ لیکن جو شخص اللہ کے سامنے پیش کرتا ہے، ممکن ہے کہ اللہ اس کو بے نیاز کردے۔ (ابوداؤد، رقم: ۵۴۶۱)
تکبر اور تواضع میں فرق
یہاں پر بات اگر آدمی کی دینداری سے شروع کی جائے تو دیندار آدمی عام زبان میں اس شخص کو سمجھا جاتا ہے۔ جو نماز، روزے کا پابند ہو، یعنی اس کے ظاہری اعمال شریعت کے مطابق ہوں اور ایسے لوگ اکثر خشک طبیعت اور سخت مزاج کے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان کے طور۔ طریقے اور برتاؤ سے عام لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید دینداری اور حسن واخلاق دومتضاد(Opposite)چیزیں ہیں۔ ایسا ہرگز
نہیں ہے، سامنے والے کا رعب خداداد ہونا یا ماتحتوں کا اپنی غلطیوں کو لے کر اس سے ڈرنا بالکل الگ ہے۔ اس سے یہ سمجھناکہ ہر دیندار کو صرف بناوٹی رعب جماتے رہنا چاہئے۔ اور اپنے سے چھوٹے کو یا اپنے سامنے آنے والے ہر شخص کو اس کی ہر غلطی پر پکڑکر ذلیل کرنا چاہئے، تاکہ وہ دوسروں کے سامنے حقیر ثابت ہوجائے، اور اپنی بڑائی لازم آئے۔ یہ بالکل غلط ہے۔ حقوق العباد پر جتنا زور اسلام نے دیا ہے۔ اور کسی مذہب یا نظام نے نہیں دیا ہے۔
قرآن وحدیث میں حسنِ اخلاق کی جس قدر فضیلت اور اہمیت آئی ہے۔ اگر اس پر غورکیا جائے تو ہماری سمجھ میں آئے گاکہ ہمارا دین ہے ہی امن وسلامتی اور خوش اخلاقی کا دین۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے نبی کریمؐ کی حیاتِ مبارکہ میں آپؐ کا اخلاق دیکھنا ضروری ہے۔ نبی کریمؐ کا تعلق قبیلہئ قریش سے تھا۔ قریش کے سردار اور مشرکین نہایت مغرور تھے، غریبوں اور کمزوروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اس کے برعکس(الٹا) نبی کریمؐ نہایت ہی عمدہ اخلاق کے عہدہ پر فائز تھے۔ جس کی گواہی قرآن حکیم میں بھی ملتی ہے۔ خود آپؐ نے بھی اپنے دنیا میں بھیجے جانے کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہ فرمایا:
کہ میں اس لیے بھیجاگیا ہوں تاکہ مکارمِ اخلاق کی تکمیل کروں۔
بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاق۔ (بیہقی، رقم: ۱۰۳۱۲)
یعنی اخلاق کو اعلیٰ درجات تک پہونچادوں۔ اچھے اور برے اخلاق کا فرق سمجھنے کے لیے پہلے ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ آخر برے اخلاق کسے کہتے ہیں اور اچھے اخلاق کسے کہتے ہیں؟ برے اخلاق اور برتاؤ میں تکبر سب سے پہلے آتا ہے، اور اچھے اخلاق میں تواضع اور انکساری اہم اخلاقی صفات (خوبیوں) اورQualitiesمیں آتا ہے۔ قرآن وحدیث میں اس حوالے سے سخت وعیدیں (برائیاں) آئی ہیں۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
حضرت عبداللہؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے کسی ذرہ برابر بھی کبر ہوگا۔
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ صَلّٰی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَایَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِی قَلْبِہٖ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ کِبر۔ (مسلم، رقم: ۶۵۲)
تکبر یہ ہے کہ آدمی حق بات کو قبول نہ کرے اور اپنے آپ کو دوسروں سے اعلیٰ اور برتر سمجھے اور صرف اپنی برتری کا سِکّہ جمانا چاہے۔ تکبر کسی کو بھی ہوسکتا ہے۔ چاہے وہ سماجی اعتبار سے ہو، مالی اعتبار سے ہو، دینی اور مذہبی اعتبار سے ہو۔ اپنی تعلیم کو لے کر ہو، اور اپنے خاندان اور نسب کو لے کر ہو۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ خاندان اور نسب کو لے کر دولوگوں کی لڑائی دوخاندان، اور پھر دو قوموں تک پہونچ جاتی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو زیر کرنے(گرانے) کے لیے ہر حربہ آزماتے ہیں۔ اسی طرح دولت مند ہونا عیب نہیں، مگر اس پر تکبر کرکے فرعون بن جانا قابلِ مذمت(برائی) ہے۔ قارون نے بھی یہی کہا تھا۔ قرآن حکیم میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
قارون کہنے لگاکہ مجھ کو تو یہ سب کچھ میری ذاتی ہنرمندی سے ملا ہے۔ کیا اس نے یہ نہ جاناکہ اللہ تعالیٰ اس سے پہلے گذشتہ امتوں میں ایسے ایسوں کو ہلاک کرچکا ہے، جو قوت میں اس سے کہیں بڑھے ہوئے تھے اور مجمع ان کا زیادہ تھا۔
قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ۔ اَوَلَمْ یَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَہْلَکَ مِنْ قَبْلِہٖ مِنَ الْقُرُوْنِ مَنْ ہُوَ اَشَدُّ مِنْہُ قُوَّۃً وَّاَکْثَرُ جَمْعًا۔ (القصص:۸۷)
پھر کچھ لوگ اپنے علم کو لے کر تکبر کرتے ہیں۔ اس میں بھی دو فرقے ہیں، ایک دنیاوی تعلیم والے، وہ اپنی پڑھائی پر اس لیے غرور کرتے ہیں کہ ان کے سامنے والے نے ان جیسے اعلیٰ معروف ومشہور اسکول اور کالج میں تعلیم نہیں پائی۔ اللہ معاف کرے کچھ عالم حضرات میں بھی علم اور تعلیم کو لے کر کافی تکبر نظر آتا ہے۔ سامنے والے کی غلطی کو وہ پہاڑ بناکر پیش کرتے ہیں۔ درگذر سے کام نہیں لیتے ہیں۔ کیونکہ وہ تو اپنے سامنے سب کو جاہل اور غلطیوں اور گناہوں سے پُر مانتے ہیں۔ قرآن مجید میں تکبر کو لے کر سخت وعید آئی ہے۔ اور اس سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ سورہئ لقمان میں حضرت لقمان علیہ السلام کی اپنے بیٹے کو کی جانے والی نصیحتوں کا تذکرہ ہے۔ ان نصیحتوں میں سے ایک اہم نصیحت تکبر سے اجتناب(بچنے) کے متعلق تھی، فرمایا:قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ حضرت لقمانؑ نے اپنے بیٹے سے فرمایا:
اور لوگوں سے اپنا رخ مت پھیر، اور زمین پر اتراکر مت چل، بیشک اللہ تعالیٰ کسی تکبر کرنے والے فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتے۔
وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِیْ الْاَرْضِ مَرَحًا۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ۔ (لقمان، آیت:۸۱)
تکبر کے برعکس جو کیفیت ہے۔ وہ ہر انسان میں ہونی چاہئے، اور وہ ہے(۱) تواضع، (۲)انکساری۔ تواضع حسنِ اخلاق کا مظہر ہے۔ اور ایمان والوں کے کامل ایمان کے لیے یہ بنیادی جزء ہے۔ سورہئ فرقان میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی خوبیوں کا ذکر کیا ہے۔ وہاں ان کی پہلی صفت(خوبی) یہ بیان ہوئی کہ:
اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب ان سے جہالت والے لوگ بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں تم کو سلام (یعنی تم پر سلامتی ہو)۔
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلٰی الْاَرْضِ ہَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا۔ (الفرقان:۳۶)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
حضرت عیاض بن حمادؓ سے مروی ہے کہ وہ نبی اکرمؐ سے نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضورؐ نے صحابہئ کرامؓ کے سامنے خطبہ پڑھا اور فرمایاکہ بیشک اللہ تبارک وتعالیٰ نے میری جانب وحی فرمائی ہے کہ لوگوں میں اعلان کردوکہ تواضع اور عاجزی اختیار کرو اس طرح کہ(کوئی بھی کسی سے زیادہ اپنے آپ کو بڑا نہ سمجھے)۔
عَنْ عَیَاضِ بْنِ حَمَّادٍ عَنِ النَّبِی صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّہٗ خَطَبَہُمْ فَقَالَ اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوْجَل اَوْحیٰ اِلٰیّ اَنْ تَوَاضِعُوا حَتّٰی لَا یَفْخرَ اَحَدٌ عَلیٰ اَحْدٍ۔ (ابن ماجہ، رقم: ۹۷۱۴)
یہاں تک کہ کوئی شخص(کسی بھی اعتبار سے) دوسرے پر فخر نہ کرے۔ ایک دوسری جگہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
اور حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ (ایک دن) انہوں نے منبر پر کھڑے ہوکر (خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:لوگو! تواضع اور انکساری اختیار کرو، کیونکہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ”جوشخص اللہ تعالیٰ کی رضامندی وخوشنودی حاصل کرنے) کے لیے لوگوں کے ساتھ تواضع اور فروتنی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے مرتبہ کو بلند کردیتا ہے، چنانچہ وہ اپنی نظر میں تو حقیر ہوتا ہے (کیونکہ وہ اپنے نفس کو ذلت وحقارت کی نظر سے دیکھتا ہے) لیکن لوگوں کی نظر میں بلند مرتبہ ہوتا ہے (کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تواضع وفروتنی کے سبب اللہ تعالیٰ اس کو لوگوں کی نظروں میں بلند مرتبہ کردیتا ہے) اور جو شخص لوگوں کے ساتھ تکبر وغرور کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے مرتبہ کو گرادیتا ہے چنانچہ وہ لوگوں کی نظر میں تو حقیر ہوتا ہے، لیکن اپنی نظر میں خود کو بلند مرتبہ سمجھتا ہے، یہاں تک کہ وہ لوگوں کے نزدیک کتا یا سؤر سے بھی بدتر ہوجاتا ہے۔
وَعَنْ عُمَرَ قَالَ وَہُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ یٰآیُّہَا النَّاسُ تَوَاضَعُوْا فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ رَفَعَہُ اللّٰہُ وَمَنْ تَکَبَّرَ وَضَعَہُ اللّٰہُ فَہُوَ فِیْ اَعْیُنِ النَّاسِ صَغِیْرٌ وَّفِیْ نَفْسِہٖ کَبِیْرٌ حَتّٰی لَہُوَ اَہْوَنُ عَلَیْہِمْ مِّنْ کَلْبٍ اَوْ خِنْزِیْرٍ۔ (بیہقی، رقم: ۰۹۷۷)فَہُوَ فِیْ نَفْسِہٖ صَغِیْرٌ وَفِیْٓ اَعْیُنِ النَّاسِ عَظِیْمٌ
متکبر کی ایک پہچان یہ ہے کہ اگر اس سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو متکبر ہرگز غلطی تسلیم نہیں کرتا حالانکہ وہ جانتا ہے کہ اس نے غلطی کی ہے اور جس سے بحث کررہا ہے اس کی دلیل وزنی ہے، لیکن اس کے باوجود اس کی جھوٹی عزتِ نفس اسے وہ غلطی قبول کرنے نہیں دیتا ہے کیونکہ وہ سوچتا ہے کہ اگر میں نے سامنے والے کی بات مان لی تو میری ناک کٹ جائے گی۔ قرآن حکیم میں منافقوں کے بارے میں ارشاد فرمایاگیا ہے:
اور جب ان سے کہاجاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آؤ، تمہارے لیے رسول اللہؐ استغفار کردیں،تو وہ اپنا سر پھیر لیتے ہیں، اور آپ ان کو دیکھیں گے کہ(وہ اس ناصح تحصیل استغفار سے) تکبر کرتے ہوئے بے رخی کرتے ہیں۔
وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا یَسْتَغْفِرْلَکُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ لَوَّوْا رُوُءْ سَہُمْ وَرَاَیْتَہُمْ یَصُدُّوْنَ وَہُمْ مُسْتَکْبِرُوْنَ۔ (المنٰفقون:۵)
اس کے برعکس(الٹا) جس شخص میں تواضع ہو اور اگر اس سے غلطی ہوجائے تو وہ اس پر اصرار نہیں کرتا۔ نہ اس کا دفاع کرتا ہے، بلکہ کھلے دل سے اسے تسلیم کرتا ہے۔ اور اپنے رویہ پر نظرثانی کرکے اپنی اصلاح کرتا ہے۔ کیونکہ سچا مومن ابلیس جیسا نہیں ہے جیساکہ آدم علیہ السلام اور ابلیس کے واقعے سے ظاہر ہوتا ہے۔ یہ قصہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب ملائکہ (فرشتوں) کو حکم دیاکہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں (یادرہے کہ ابلیس جوکہ جنات میں سے تھا مگر اپنے زہدوتقویٰ کی وجہ
سے ملائکہ میں شمار اور مشہور ہورہا تھا) تو سب نے حکم الٰہی کی تعمیل کی، مگر ابلیس نے حکم ماننے سے انکار کردیا۔ اور پھر اپنی غلطی پر نادم ہونے اور پچھتانے کے بجائے اللہ کے سامنے دلیل پیش کی کہ میں اعلیٰ ہوں، آگ سے بنایا گیا ہوں، اور آدم علیہ السلام ادنیٰ ہیں، انہیں مٹی سے بنایاگیا ہے، انہیں میں کیسے سجدہ کرسکتا ہوں؟ یوں تکبر کی وجہ سے اس کی ساری عبادت زہدوتقویٰ برباد ہوگیا۔ اور اسے راندہئ درگاہ کردیا گیا اس کے مقابلے میں حضرت آدم علیہ السلام کا طرزِ عمل دیکھیں۔ ”حضرت آدم علیہ السلام اور امّاں حواؓ سے خطاہوئی۔ انہیں ایک درخت کا پھل کھانے سے منع کیا گیا تھا۔ مگر انہوں نے وہ پھل کھالیا۔ لیکن ابلیس کے برعکس وہ اپنی خطا پر سخت نادم (شرمندہ) ہوئے۔ اور ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھاکہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے دربار میں اپنے جرم کا اعتراف کریں۔ تو اللہ جوکہ رحمن ورحیم بھی ہے۔ اس نے خود ہی ان کو چند کلمات سکھادیئے اور ان کلمات کے ساتھ انہوں نے گڑگڑاکر توبہ کی۔ وہ کلمات تھے:
دونوں کہنے لگے کہ اے ہمارے رب ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر آپ ہماری مغفرت نہ کریں گے اور ہم پر رحم نہ کریں گے تو واقعی ہمارا بڑا نقصان ہوجائے گا۔
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۔ (الاعراف:۳۲)
الغرض متکبر کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ کیونکہ اس کے ذریعہ ناحق اور ظلم وفجور کی پیدائش ہوتی ہے۔ اور تواضع وانکساری آدمی میں شفقت ومحبت اور حق قبول کرنے کا جذبہ پیدا کرتی ہے، اور یہی چیزیں روحانی بلندی کا باعث بنتی ہیں اور روحانی ترقی اسے کامیابی سے ہمکنار کرکے اس کا ٹھکانہ جنت میں بنادیتی ہے۔ اس لیے ہم میں سے ہرمسلمان کو ہر وقت تواضع اور انکساری کو اپنے لیے لازم پکڑلینا چاہئے اور ان لوگوں کو تو خاص کر اپنی تواضع اور انکساری کا خیال رکھنا ہے۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے کسی خاص دینی یادنیاوی صفت سے نوازا ہے۔ تاکہ وہ اس صفت کے ذریعہ اسلام کی تبلیغ کا باعث بن سکیں۔ ان کے اعلیٰ کردار اور حسنِ اخلاق سے متأثر ہوکر اسلام فروغ وترقی پاسکتا ہے۔ اور وہ خود بھی آخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے، آمین!!


