
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ جو شخص اللہ پر اور یوم آخرت پرایمان رکھتا ہو۔ اس کو چاہئے کہ وہ یاتو اچھی اور نیک بات کہے یا خاموش رہے۔
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ کَانَ یُوْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا اَوْ لِیَصْمُتْ۔ (بخاری شریف:۲/۹۵۹)
تشریح حدیث
حدیث شریف کے اندر زبان سے سرزد ہونے والے گناہوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انسان لاپرواہی اور غفلت میں زبان کے ذریعے بہت سارے گناہوں کو انجام دے لیتا ہے اور اس کو احساس بھی نہیں ہوتا ہے۔ اس لئے انسان زبان کے استعمال میں احتیاط سے کام لے اور سوچ سمجھ کر زبان کا استعمال کرے۔ بعض اوقات آدمی بغیر سوچے سمجھے لاپرواہی کی حالت میں باتیں کرلیتا ہے اور وہ باتیں اس کے لئے سخت ترین عذاب کا سبب بن جاتی ہے اس لئے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ: زبان کو دیکھ بھال کر استعمال کرواگر کوئی اچھی بات زبان سے کہنی ہوتو کہو، ورنہ خاموش رہو۔
زبان ایک عظیم نعمت
یہ زبان جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہے۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ بولنے کی ایسی مشین عطا فرمادی کہ جو پیدائش سے لے کر مرتے دم تک انسان کا ساتھ دے رہی ہے اور چل رہی ہے۔ اور اس طرح چل رہی ہے کہ آدمی نے ذرا ادھر ارادہ کیا۔ ادھر اس نے کام شروع کردیا۔ اب چونکہ اس مشین کو حاصل کرنے کے لئے کوئی محنت اور مشقت نہیں کی کوئی پیسہ خرچ نہیں ہوا اس لئے اس نعمت کی قدر معلوم نہیں ہوتی ہے جو نعمت بے مانگے مل جاتی ہے۔ اس کی قدر نہیں ہوتی۔ اب یہ زبان بھی
بے مانگے مل گئی ہے ہم جو چاہتے ہیں اس زبان سے بول پڑتے ہیں۔ اس نعمت کی قدر ان لوگوں سے پوچھیں جو اس نعمت سے محروم ہیں زبان موجود ہے مگر بولنے کی طاقت نہیں ہے آدمی کوئی بات کہنا چاہتا ہے مگر کہہ نہیں سکتا۔ دل میں جذبات پیدا ہورہے ہیں مگر ان کا اظہار نہیں کرسکتا۔ اس سے پوچھیں کہ زبان کتنی بڑی نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا انعام ہے۔
زبان جہنم میں لے جانے والی ہے
ایک حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ جتنے لوگ جہنم میں جائیں گے ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہوگی جو اپنی زبان کی کرتوت کی وجہ سے جہنم میں جائیں گے۔ مثلاً جھوٹ بول دیا۔ غیبت کردی۔ کسی کا دل دکھادیا۔ کسی کی دل آزاری کی۔ دوسروں کے ساتھ غیبت میں حصہ لیا۔ کسی کی تکلیف پر خوشی کا اظہار کیا وغیرہ۔ جب یہ گناہ کے کام کئے تو اس کے نتیجے میں وہ جہنم میں چلا گیا۔ ارشاد نبویؐہے:
لوگوں کو جہنم میں ان کے چہروں کے بل کوئی چیز نہیں گرائے گی مگر ان کی زبان۔
ہَلْ یَکُبَّ النَّاسَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوْہِہِمْ اِلَّا حَصَاءِدَ اَلْسِنَتِہِمْ۔ (ترمذی شریف:۲/۹۸)
یہ ایک لمبی حدیث ہے جو حضرت معاذبن جبلؓ سے مروی ہے حضرت معاذؓ نے سفر کے دوران حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز روزہ زکوٰۃ حج اور دیگر چیزوں کے بارے میں سوال کیا آپؐ نے ہر ایک سوال کا جواب دیا پھر حضورؐ نے فرمایاکیا میں تم کو ان سب باتوں کی جڑ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ حضرت معاذؓ نے کہا: کیوں نہیں یارسول اللہؐ!؟ حضورؐ نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا: اے معاذ!اسے اپنے اوپر روکے رکھو۔ حضرت معاذؓ نے عرض کیا: یارسول اللہؐ! کیا ہماراہماری باتوں پر جو ہم بولتے ہیں اس پر مواخذہ ہوگا اور ہماری گرفت ہوگی؟ حضورؐ نے فرمایا تم پر تمہاری ماں روئے اے معاذ! دوزخ میں جانے والے اکثر لوگ زبان کے ہی ڈسے ہوئے ہوں گے یعنی زبان کے غلط استعمال کی وجہ سے جہنم میں جائیں گے۔ اس لئے ہمیں زبان کے استعمال میں احتیاط برتنی چاہئے۔ جب کبھی بولنا ہوتو صحیح اور درست بات بولیں ور نہ خاموش رہیں۔ اس لئے کہ خاموشی اس سے ہزار درجہ بہتر ہے کہ آدمی غلط بات زبان سے نکالے۔
میں جنت کی ضمانت دیتا ہوں
ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ جو شخص مجھے دو چیزوں کی ضمانت اور گارنٹی دے دے تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ ایک اس چیز کی گارنٹی دے دے جو اس کے دو جبڑوں کے درمیان ہے یعنی زبان کہ یہ غلط استعمال نہیں ہوگی اس زبان سے جھوٹ نہیں نکلے گا۔ غیبت نہیں ہوگی۔ کسی کا دل نہیں دکھایا جائے گا وغیرہ۔ اور ایک اس چیز کی ضمانت دے جو اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان ہے یعنی شرمگاہ کہ اس کو غلط جگہ پر استعمال نہیں کرے گا۔ تو میں اس کو جنت کی ضمانت دیتاہوں۔ اس سے معلوم ہواکہ زبان کی حفاظت دین کی حفاظت کا آدھا حصہ ہے یعنی آدھا دین زبان کے اندر ہے۔ گناہوں کی کثرت زبان کے ذریعے ہی ہوتے ہیں۔ اس لئے اس کی حفاظت ضروری ہے۔ حدیث شریف ملاحظہ ہوں۔
حضرت سہل بن سعدؓ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جو شخص اپنے دونوں جبڑوں کے درمیان کی چیز(زبان) اور دونوں ٹانگوں کے درمیان کی چیز(شرمگاہ) کا ضامن ہوتو میں اس کے لئے جنت کا ضامن ہوں۔
عَنْ سَہْلِ بْں ِ سَعْدٍؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ یَضْمَنُ لِیْ مَابَیْنَ لِحْیَیْہِ وَمَا بَیْنَ رِجْلَیْہِ اَضْمَنُ لَہٗ الْجَنَّۃَ۔ (بخاری شریف:۲/۸۵۹)
نجات کے لئے تین کام
ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت عقبہ بن عامرؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا یارسول اللہ نجات کا کیا طریقہ ہے یعنی آخرت میں جہنم کے عذاب سے نجات مل جائے۔ اور اللہ تعالیٰ اپنی رضامندی عطافرمادیں۔ اور جنت میں داخلہ فرمادیں۔ اس کا کیا طریقہ ہے؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کے جواب میں تین جملے ارشاد فرمائے۔ پہلا جملہ یہ ارشاد فرمایاکہ تم اپنی زبان کو اپنے قابو میں رکھو۔ زبان بے قابو نہ ہونے پائے۔اور دوسرا جملہ یہ ارشاد فرمایاکہ تمہارا گھر تمہارے لئے کافی ہو یعنی اپنا زیادہ وقت گھر میں گذارو بلاضرورت گھر سے باہر نہ جاؤ تاکہ باہر جو فتنے ہیں ان کے اندر مبتلا ہونے سے محفوظ رہو۔ اور تیسرا جملہ یہ ارشاد فرمایاکہ تم اپنی غلطیوں پر روتے رہو۔ توبہ کرو اور اللہ سے مغفرت طلب کرو۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
حضرت عقبہ بن عامرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نجات کی کیا صورت ہے؟ فرمایا اپنی زبان قابو میں رکھو۔ اپنے گھر میں رہو اور اپنی غلطیوں پر روتے رہو۔
عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ مَاالنَّجَاۃُ؟ قَالَ اَمْلِکْ عَلَیْکَ لِسَانِکَ وَلِیَسَعْکَ بَیْتِکَ وَابکِ عَلٰی خَطِیْءَتِکَ۔ (ترمذی شریف:۲/۶۶)
قیامت کے دن اعضاء بولیں گے
قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اعضاءِ انسان کو بولنے کی طاقت عطا کریں گے۔ انسان نے جو جو گناہ کئے ہوں گے اعضاء ان تمام گناہوں کو بتادے گی اگر اچھائی کی ہوگی تو اچھائی کو بھی بتلا دے گی۔
جب میدانِ محشر میں اللہ تعالیٰ انسانوں کے سامنے اس کے نامہئ اعمال کو کھول دیں گے اور اس میں انسان اپنے تمام اعمال خواہ وہ اچھے ہوں یا برے ہوں تمام کو دیکھ لے گا تو اس وقت انسان برائی کو دیکھ کر کہے گا کہ میں نے یہ برائی نہیں کی ہے یہ بغیر کئے لکھ دیا گیا ہے تو اس وقت اللہ تعالیٰ انسان کی زبان پر مہر لگا دیں گے اس وقت ان کے ہاتھ پاؤں گواہی دیں گے۔ ارشاد ربانی ہے:
آج ہم مہر لگا دیں گے ان کے منہ پر اور بولیں گے ہم سے ان کے ہاتھ اور گواہی دیں گے ان کے پاؤں جو وہ کیا کرتے تھے۔
اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰی اَفْوَاھِھِمْ وَتَکَلِّمُنَا اَیْدِیْھِمْ وَتَشْھَدُاَرْجُلُھُمْ بِمَاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ۔ (یٰسن ۵۶)
بہر حال اس زبان کی حفاظت بہت ضروری ہے۔ جب تک انسان اس پر قابو نہ پالے اور اس کو گناہوں سے نہ بچا لے اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس زبان کی حفاظت کرنے کی اور اس کو صحیح استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین۔


