
اور پاس نہ جاؤ یتیم کے مال کے مگر اس طرح کہ بہتر ہو، یہاں تک کہ پہنچ جائے اپنی جوانی کو اور پورا کرو ناپ اور تول کو انصاف کے ساتھ اور ہم کسی کے ذمہ وہی چیز لازم کرتے ہیں جس کی اس کو طاقت ہو اور جب بات کہو تو حق کی کہو اگرچہ وہ اپنا قریب ہی ہو۔ اور اللہ کا عہد پورا کرو ان سب باتوں کا اللہ نے تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو۔
وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغَ اَشُدَّہٗ وَ اَوْفُوا الْکَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْط لَا نُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَ لَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی وَ بِعَہْدِ اللّٰہِ اَوْفُوْا ذٰلِکُمْ وَصّٰیکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ۔ (الانعام: ۲۵۱)
تفسیر و تشریح
اس آیت مبارکہ سے قبل کی آیت: قل تعالوا اتل الخ میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی حرام کردہ دس چیزوں میں سے پانچ چیزوں کا بیان کیا گیا تھا۔ باقی پانچ چیزوں کا بیان مذکورہ آیت مبارکہ میں کیا جا رہا ہے۔
چھٹا گناہ: یتیم کا مال ناجائز طور پر کھانا
چھٹی چیز جس سے بچنے کا آیت مبارکہ میں حکم دیا گیا ہے وہ یتیم کا مال ناجائز طور پر کھانا ہے چنانچہ فرمایا: وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغَ اَشُدَّہ۔”یعنی یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو مستحسن ہو یہاں تک کہ وہ اپنے سنِّ بلوغ کو پہنچ جائے۔“
اس آیت مبارکہ میں یتیم نابالغ بچوں کے ولی اور پالنے والے کو خطاب کیا گیا ہے کہ وہ ان کے مال کو ایک آگ سمجھیں اور ناجائز طور پر اس کے کھانے اور لینے کے پاس بھی نہ جائیں۔
جیسا کہ دوسری آیت میں انہی الفاظ کے ساتھ اس طرح ذکر کیا گیا ہے کہ: جو لوگ یتیموں کا مال ناجائز طور پر ظلماً کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں اگ بھرتے ہیں۔
بس جو یتیم کے ولی ہیں انہیں یتیم کا مال ہرگز غلط طریقے سے نہیں لینا چاہیے۔
لیکن اگر یتیم کا ولی یتیم کے مال کی حفاظت کی غرض سے اس کو کسی ایسی جائز تجارت یا کاروبار میں لگائے جس سے وہ اور بڑھ جائے اور نقصان کا خطرہ بھی عادتاً نہ ہو تو ایسا کرنا مستحسن بلکہ ضروری ہے اور یتیموں کے ولی کو ایسا کرنا چاہیے تاکہ مال محفوظ بھی ہو جائے اور بڑھ بھی جائے۔ چنانچہ آیت مبارکہ میں اس کے بعد ”حَتّٰی یَبْلُغَ اَشُدَّہٗ“ کہہ کر یتیم کے مال کی حفاظت کی ذمہ داری کی ایک حد بھی بتلا دی کہ تمہیں کب تک ان کے مال کی حفاظت کرنی ہے؟ تو فرمایا کہ: جب تک کہ وہ اپنے سنّ بلوغ کو پہنچ جائے تو ولی کی ذمہ داری ختم ہو گئی اب اس کا مال اس کے سپرد کر دیا جائے۔
لفظ ”اَشُدّ“کے اصلی معنی ”قوت“ کے ہیں اور اس کی ابتداء جمہور علماء کے نزدیک بالغ ہو جانے سے ہو جاتی ہے۔ جس وقت بچے میں آثارِ بلوغ پائے جائیں یا ان کی عمر ۵۱/ سال کی پوری ہو جائے اس وقت اس کو شرعاً بالغ قرار دیا جائے گا۔
البتہ بالغ ہونے کے بعد یہ دیکھا جائے گا کہ اس میں اپنے مال کی حفاظت اور صحیح مصرف میں خرچ کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے یا نہیں؟ اگر صلاحیت دیکھی جائے تو بالغ ہوتے ہی اس کا مال اس کے سپرد کر دیا جائے اور اگر یہ صلاحیت اس میں موجود نہیں تو ۵۲/ سال کی عمر تک مال کی حفاظت ولی کے ذمے ہے۔ اور اس درمیان میں جس وقت بھی اس کو مال کی حفاظت اور کاروبار کی لیاقت پیدا ہو جائے تو مال اس کو دیا جا سکتا ہے۔
پس آیت مبارکہ میں یتیم کے ولیوں کو ناجائز طریقے سے یتیم کا مال کھانے یا لینے سے ہی نہیں روکا گیا بلکہ اس کے قریب جانے سے بھی منع کر دیا ہے مگر جائز طریقے سے ان کا استعمال جائز قرار دیا ہے۔
ساتواں گناہ: ناپ تول میں کمی
ساتویں چیز جس سے آیت مبارکہ میں بچنے کا حکم دیا گیا ہے وہ ہے ناپ تول میں کمی کرنا۔
پس اس آیت مبارکہ میں فرمایا کہ: ناپ تول کو انصاف کے ساتھ پورا کرو۔
انصاف کا مطلب یہ ہے کہ دینے والا دوسرے فریق کے حق میں کوئی کمی نہ کرے اور لینے والا اپنے حق سے زیادہ نہ لے۔ چیزوں کے لین دین میں ناپ تول میں کمی زیادتی کو قرآن نے شدید حرام قرار دیا ہے اور اس کے خلاف کرنے والوں کے لیے سورہ مُطفِّفین میں سخت وعید ائی ہے۔
مفسر القران حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو جو تجارت میں ناپ تول کا کام کرتے ہیں. خطاب کر کے ارشاد فرمایا کہ: ناپ اور تول یہ دو کام ہیں،، جن میں بے انصافی کرنے کی وجہ سے تم سے پہلے کئی امّتیں عذاب الہی کے ذریعے تباہ ہو چکی ہیں تم اس میں پوری احتیاط سے کام لو۔ (تفسیر ابن کثیر)
یہ بھی ناپ تول میں کمی ہے
یاد رہے کہ ناپ تول کی کمی جس کو قران میں تطفیف کہا گیا ہے صرف کم ناپنے کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ کسی کے ذمے دوسرے کا جو حق ہے اس میں کمی کرنا بھی تخفیف میں داخل ہے۔ جیسا کہ مؤطا امام مالک رحمہ اللہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص کو نماز کے ارکان میں کمی کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ تو نے تطفیف کر دی۔ یعنی جو حق واجب تھا وہ ادا نہیں کیا۔
اس کو نقل کر کے امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لکل شیء وفاء و تطفیف۔ ”یعنی حق کا پورا دینا اور کمی کرنا ہر چیز میں ہوتا ہے صرف ناپ تول ہی میں نہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ جو ملازم اپنی ڈیوٹی پوری نہیں کرتا، وقت چراتا ہے یا کام میں کوتاہی کرتا ہے۔ وہ کوئی وزیر ہو یا معمولی ملازم اور وہ کوئی دفتری کام کرنے والا ہو یا علمی اور دینی خدمت۔ جو بھی اس کے ذمہ ہو اگر وہ اس میں کوتاہی کرتا ہے تو وہ بھی مُطفِّفِین یعنی (ناپ تول میں کمی کرنے والوں) میں داخل ہوگا۔ اسی طرح مزدور جو اپنی مقررہ خدمت میں کوتاہی کرے وہ بھی اس میں داخل ہے۔
ہم کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ کا حکم نہیں دیتے
اس کے بعد فرمایا: لاَ نُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا۔”یعنی ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ کسی چیز کا حکم نہیں دیتے۔“ ناپ تول کو پورا کرنے کا حکم دینے کے بعد اس آیت پاک کو لانے کا مقصد یہ بتلانا ہے کہ جو شخص اپنی حدّ اختیار تک ناپ تول کا پورا پورا حق ادا کرے تو اگر اس کے باوجود غیر اختیاری طور پر کوئی معمولی کمی بیشی ہو جائے تو وہ معاف ہے کیونکہ وہ اس کی قدرت و اختیار سے خارج ہے۔
اور تفسیر مظہری میں ہے کہ اس جملے کا اضافہ کرنے سے اشارہ اس طرف ہے کہ حق ادا کرنے کے وقت احتیاط اس میں ہے کچھ زیادہ دے دیا جائے تاکہ کمی کا شبہ نہ رہے جیسا کہ پیارے نبیؐ نے ایک ایسے موقع پر وزن کرنے والے کو حکم دیا کہ: زِنْ وَاَرْجِحْ۔ ”یعنی تولو اور جھکتا ہوا تولو۔“ (ابو داؤد، ترمذی)
اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عام عادت یہی تھی کہ جس کسی کا کوئی حق آپؐ کے ذمہ ہوتا تو اس کے ادا کرنے کے وقت اس کے حق سے زائد ادا فرمانے کو پسند فرماتے تھے۔
اور بخاری کی ایک حدیث میں بروایت جابر رضی اللہ عنہ مذکور ہے کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جو بیچنے کے وقت بھی نرم ہو کہ حق سے زیادہ دے اور خریدنے کے وقت بھی نرم ہو کہ حق سے زیادہ نہ لے بلکہ کچھ معمولی کمی بھی ہو تو راضی ہو جائے۔
مگر یہ حکم اخلاقی ہے کہ دینے میں زیادہ دے اور لینے میں کم بھی ہو تو جھگڑا نہ کرے۔ یہ قانونی چیز نہیں ہے کہ آدمی کو ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا ہو۔ اسی کی طرف اشارہ کرنے کے لیے قرآن میں یہ ارشاد فرمایا کہ: لاَ نُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا۔ ”ہم کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ چیز کا حکم نہیں دیتے۔“ یعنی دوسرے کو اس کے حق سے زیادہ ادا کرنا اور اپنے حق میں کمی پر راضی ہو جانا کوئی جبری حکم نہیں ہے؛ کیونکہ عام لوگوں کے لیے یہ کرنا آسان نہیں ہے۔
لیکن ضروری یہ ہے کہ ناپ تول میں کمی نہ کرو بلکہ انصاف کے ساتھ ناپ تول کیا کرو۔ یعنی جب تم دو تو پورا کا پورا دو اس میں بالکل کمی نہ کرو۔
پس معلوم ہوا کہ ناپ اور تول میں کمی کرنا بڑا سنگین جرم ہے۔
اس لیے اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی ہم سبھی کو ان گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
یہاں تک اللہ کے حرام کردہ دس چیزوں میں سے سات کا بیان کر دیا گیا ہے ابھی تین گناہ اور باقی ہیں وہ انشائاللہ اگلے ماہ بیان کیے جائیں گے۔
جاری………………

